Orhan

Add To collaction

نفرت 

نفرت 
از قلم ناصر حسین
قسط نمبر2

رات کو دس بجے وہ کچن میں اپنے لئے چائے بنا رہی تھی جب وہ اچانک کچن میں آیا تھا ویسے وہ اس گھر کا مرد تھا جو کچن میں قدم رکھنا بھی توہین سمجھتے تھے لیکن پتا نہیں اس وقت کیسے آ گیا ۔۔۔۔۔۔
" کیا کر رہی ہو تم " 
" چائے بنا رہی ہوں ۔۔۔۔ " 
اس نے روکھے انداز میں جواب دیا ۔۔۔۔
" اتنی رات کو کیوں جاگ رہی ہو تم جا کر سو جاو ۔۔۔۔ " 
وہ حکم دینے والے انداز میں بولا ۔۔۔۔ اس گھر میں لڑکیوں کا دیر رات تک جاگنا بھی جرم تھا ۔۔۔۔
" کیا یہ بھی تمہارے آغا صاحب کا حکم ہے " 
" نہیں یہ میرا حکم ہے ۔۔۔۔ " 
" اگر یہ آغا صاحب کا حکم ہے تو میں نہیں مانوں گی اور اگر تمہارا حکم ہے تو بالکل نہیں مانوں گی ۔۔۔۔۔ " 
وہ مسکراتے ہوئے اسے غصہ دلانے کی کوشش کر رہی تھی اور وہ حسب توقع غصے سے لال ہو گیا ۔۔۔ اسے غصہ جلدی آتا تھا ۔۔۔۔ 
" بکواس بند کرو جب کہہ دیا جا کر سو جاو ۔۔۔تو بحث کیوں کر رہی ہو تم ۔۔۔۔۔ " 
" میری مرضی میں جب چاہوں سو جاوں ۔۔۔ تم کون ہوتے ہو حکم چلانے والے ۔۔۔۔ " 
وہ چلا اٹھی ۔۔۔۔
" پھر سے تم ۔۔۔۔۔۔ آپ بولا کرو مجھے ۔۔۔۔۔ " 
وہ غصے سے ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئی ۔۔۔۔۔۔
" میں جا رہا ہوں دو منٹ بعد تم کمرے میں دفع ہو جانا ۔۔۔۔ " 
وہ کچن کے دروازے پر گیا اور اچانک کچھ یاد آنے پر واپس مڑا ۔۔۔۔
" تمہارا دوپٹہ کہاں ہے ۔۔۔۔ " 
" میرا دوپٹہ کمرے میں ہے اگر دوپٹوں کا زیادہ شوق ہے تو خود پہن لو ۔۔۔۔۔ " 
چائے کا کپ ٹرے میں رکھتی اس کے جانے سے پہلے وہ کچن کے دروازے سے باہر چلی گئی ۔۔۔۔۔ سکندر نے غصے سے اپنی ہتھیلی دروازے پر ماری تھی ۔۔۔ وہ آغا جان اور تایا کے سامنے دوپٹہ لیتی تھی لیکن اسے اتنی اہمیت نہیں دیتی تھی اور نہ ہی اس سے ڈرتی تھی جیسے وہ چاہتا تھا وہ اس سے ڈرے اس کی ہر بات پر سر جھکائے کر  " جی ہاں " کہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن وہ ایسا کیسے کرتی ۔۔۔ ایک تو وہ دونوں بچپن سے ایک ہی گھر میں بڑے ہوئے اوپر سے بچپن کی منگنی نے بھی اس کے دل میں سکندر کے لئے نفرت پیدا کر دی تھی ۔۔۔۔۔
خاندان میں برسوں سے چلی آ رہی رسم و رواج کا وہ بھی شکار ہو گئی ، اسے بچپن سے ہی سکندر اور آغا جان کی تحکمیہ انداز سے نفرت ہو گئی ۔۔۔ آخر سمجھ کر وہ دوسروں کی زندگی کا فیصلہ کرتے ہیں اور سوچتے ہیں پورا گھر ان کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے ۔۔۔۔۔۔
سکندر نے بچپن میں بھی اس کے ساتھ یہی کیا ، یہی رعب یہی حکم نامہ ۔۔۔۔ فلاں کے ساتھ نہ کھیلو ۔۔۔۔ فلاں طیز کھیلو ۔۔۔۔ میرے ساتھ کھیلو ۔۔۔۔۔  یہ کرو وہ کرو ۔۔۔۔۔ اسے ان اصولوں ان بندشوں سے چڑ ہوتی گئی اور آج اتنے برس بعد اس کی وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر چڑ جانا سکندر کے لئے نفرت کی ایک ایسی دیوار بن گئی جو کبھی نہیں ٹوٹ سکتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت بدل گیا ، کئی برس بیت گئے لیکن سکندر اور آغا جان کے رویے میں اس نے رتی برابر بھی تبدیلی نہیں دیکھی ۔۔۔۔ ان کی جو حکم چلانے والی عادتیں وہ بچپن سے دیکھتی آ رہی تھی وہ اب بھی ویسی تھیں ۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی اسے لگتا سکندر آغا جان کا دوسرا روپ لے کر پیدا ہوا ہے ۔۔۔۔ اور وہ ایسے کسی انسان کے ساتھ زندگی تو دور لمحے بھی نہیں گزار سکتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_____________________________________________
تحریر ناصر حسین 
___________________________________________
یہ صبح کا وقت تھا ۔۔۔۔ گھر کے سارے مرد اس وقت زمینوں کی طرف ، یا پنچائت کی طرف نکل جاتے ۔۔۔۔ سکندر یا تو دوستوں کی طرف نکل جاتا یا گاڑی پر لانگ ڈرائیو کے لئے نکل جاتا اور رات کو واپس آ جاتا ۔۔۔۔۔۔
آغا جان پنچائیت کے سربراہ تھے اور اکثر گاوں والے لوگ انہی سے اپنے گھریلو معاملات حل کرواتے تھے ۔۔۔۔۔ یعنی جو تعویذ لکھ کے دیتا تھا عمر دراز کے وہ عامل خود بیچارہ جوانی میں مر گیا ۔۔۔۔۔۔ آغا جان کا اپنا گھر جن مسائل کا شکار تھا ان کے اپنے گھر کی عورتیں آزاد کے لئے ترس رہی تھیں اور وہ گاوں جا کر ان کے گھریلو مسائل حل کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔
وہ کئی برس پہلے ہی شہر میں شفٹ ہو گئے تھے ان کا گھر مین روڈ پر ایک بہت بڑی عمارت تھی ۔۔۔۔ شاید ہی ایسی عمارت آس پاس کسی اور کی ہو ۔۔۔۔ لیکن شہر میں رہائش پذیر ہونے کے باوجود بھی آغا جان کی سوچ نہ بدلی اور وہ شہر میں بھی وہی گاوں والے قانون لاگو کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔۔ سکندر کے علاوہ فیروز تایا اور ان کا بڑا بیٹا دلاور فیروز کے خیالات بھی آغا جان سے مختلف نہ تھے لیکن وہ آغا جان کی طرح حد سے زیادہ شدت پسند نہیں تھے ان کے برعکس سکندر ہو بہو آغا جان کی کاپی تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اور سکندر سے نفرت کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
وہ کچن میں آئی جہاں امی اور ثوبیہ بھابھی ناشتہ بنا رہی تھیں ۔۔۔۔ امی اسے بھی کچن میں کام کرنے کے لئے فورس کرتی رہتی تھیں لیکن وہ کچن میں کم ہی جاتی تھی ۔۔۔۔ کچن کا سارا کام ، امی ، ثوبیہ بھابھی یا پھر نرمین سنبھالتی تھیں ۔۔۔۔ گھر میں کوئی ملازم نہیں تھا گھر کے سارے کام خود کرنے پڑتے تھے ۔۔۔۔ پہلے تو انم بھی کچن میں ہاتھ بٹایا کرتی تھی لیکن اب جب سے اس کی شادی کی ڈیٹ فکس ہوئی تھی تائی نے اسے کچن میں آنے سے منع کر دیا ۔۔۔ تائی خود بھی کچن میں کم ہی آتی تھیں ۔۔۔ اگر آتیں بھی تو بس حکم چلانے ۔۔۔ 
اس گھر کا ایک بھیانک اصول اور بھی تھا جب تک گھر کے سارے مرد کھانا کھا نہ لیں تب تک ساری عورتیں بھوکی رہیں گی ۔۔۔۔ ایسا کہاں ہوتا ہے آج کے زمانے میں ۔۔۔۔۔۔
لیکن باقی رسموں کی طرح وہ اس رسم کو بھی فضول اور احمقانہ سمجھتی تھی اسے جب بھی بھوک لگتی وہ کچن میں یا اپنے کمرے میں جا کر کھانا کھا لیتی تھی ۔۔۔۔۔
" کہیں جا رہی ہو تم  " 
ثوبیہ بھابھی نے اسے غور سے دیکھا ۔۔۔ شاید اس کی تیاری سے ہی انہوں نے یہی اندازہ لگایا تھا ۔۔۔۔ امی نے بھی کریلے کاٹتے ہوئے نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔۔
" ہاں ۔۔۔۔ وہ میں زرا باہر جا رہی ہوں ۔۔۔۔ " اس نے نظریں چراتے ہوئے فریج سے پانی کی بوتل نکالی ۔۔۔۔۔
" کہاں جا رہی ہو " اب کی بار امی نے سوال کیا اور ان کے لہجے میں تشویش کے ساتھ ساتھ غصہ بھی تھا ۔۔۔۔۔
" زویا کی طرف جا رہی ہوں ۔۔۔۔ اور کہاں جا رہی ہوں " 
بوتل واپس رکھ کر وہ جانے کے لئے مڑی ۔۔۔۔
" گھر کے مردوں کے آنے سے پہلے لوٹ آنا کم بخت  " 
وہ ٹھنڈی سانس لے کر باہر آئی ۔۔۔۔ جانے وہ دن کب آئے گا جب اسے گھر سے باہر جاتے ہوئے امی کی یہ لائن نہیں سننے کو ملے گی ۔۔۔۔۔۔۔
جب تک وہ صیح سلامت گھر واپس نہ آ جاتی امی تب تک گھر میں بیٹھ کر دعائیں کر رہی ہوتیں کہ گھر کا کوئی مرد نہ واپس آ جائے ۔۔۔۔۔ تائی کے علاوہ ایسا کوئی نہیں تھا جو اس کی چغلی کرتیں لیکن تائی کا علاج بھی اس نے ڈھونڈا ہوا تھا  ۔۔۔۔۔۔ 
کئی بار تائی خود بھی جھوٹ بول بول کر ادھر ادھر ہوئیں ہیں تو وہ ان کی اسی کمزوری کو لے کر انہیں بلیک میل کرتی رہتی تھی ۔۔۔۔ 
یعنی آپ میرے باہر جانے کے بارے میں کسی کو نہ بتاو میں آپ کے بارے میں کسی کو نہیں بتاوں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سودا کافی عرصے سے جاری تھا۔۔۔۔
وہ گھر سے باہر آئی ۔۔۔ سامنے پورچ میں کھڑی دو نئی گاڑیوں پر اس کی نظر پڑی ۔۔۔ اس گھر میں استعمال کے علاوہ بھی دو گاڑیاں اضافی تھیں لیکن انہیں چلانے کی ہمت کسی کی نہیں تھی ۔۔۔۔۔  آغا جان عورتوں کی ڈرائیونگ کے بھی سخت خلاف تھے اس لئے انہیں جب بھی باہر جانا ہوتا وہ رکشہ یا ٹیکسی استعمال کرتیں ۔۔۔۔۔
وہ کچھ اور آگے آئی تو اسے سامنے سے آتی انم دکھائی دی جو دروازے کے پاس سے ہی اندر کی طرف بڑی تیزی سے آ رہی تھی ۔۔۔۔۔
اچانک انم کی نظر اس پر پڑی تو وہ بری طرح چونک گئی شاید ڈر سے کانپ بھی رہی تھی اور وہ غور سے انم کو دیکھنے لگی جس کے چہرے پر گھبراہٹ تھی ۔۔۔۔۔
" کیا ہوا انم تم ٹھیک تو ہو ناں " 
اس نے تشویش لے کر انم سے پوچھا ۔۔۔۔ اور انم نے لرزتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا اور تقریبا بھاگتے ہوئے گھر کے اندر کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔ اور وہ وہیں کھڑی سوچ میں پڑ گئی انم کو اچانک کیا ہوا۔۔۔۔ پھر وہ یہی سوچ کر باہر آئی کہ زویا سے مل کر جب واپس آئے گی تو انم سے پوچھ گچھ کرے گی ۔۔۔۔۔۔۔
وہ رکشہ کر کے زویا کی طرف روانہ ہوئی ۔۔۔۔ 
آج اسے زویا سے خاص میٹنگ کرنی تھی ۔۔۔ اس نے دو ہفتے پہلے ایک پرائیوٹ ٹیوشن میں کمپیوٹر سیکھنے کے لئے اپلائی کیا تھا اور آج صبح ہی زویا نے اسے بتایا اس کی ایڈمیشن ہو گئی اور دو ہفتے تک وہ کلاسسز لینے آ سکتی ہے اسی حوالے سے مزید باتیں کرنے وہ زویا کی طرف جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
زویا اپنے گھر میں نہیں تھی اس نے اسے ایک ڈھابہ نما ہوٹل پہ بلایا تھا جو بالکل سڑک کے کنارے تھا ۔۔۔ 
" تم ایک بار پھر سے سوچ لو عشرت مجھے نہیں لگتا تمہارے آغا جان یا سکندر تمہیں اس چیز کی اجازت دیں گے " 
زویا اسے تین بار پہلے دہرائی ہوئی بات پھر سے بتا رہی تھی ۔۔۔۔
" ڈرو مت کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔ آغا جان کو میں راضی کر لوں گی اور سکندر سے میں بالکل نہیں ڈرتی ۔۔۔۔ " 
زویا نے چائے کا آرڈر کیا ۔۔۔ دو منٹ بعد چائے آئی اور وہ دونوں چائے پینے لگیں ۔۔۔۔ یہاں آ کر بھی اسے بار بار انم کا خیال آ رہا تھا اس کی گھبرائی ہوئی شکل سامنے آ رہی تھی  ۔۔۔۔۔۔
" تو تم کب بات کرو گی ۔۔۔۔۔ " 
" ابھی نہیں ۔۔۔۔ ابھی تو انم کی شادی ہے ۔۔۔۔ اس سے نمٹ کر تسلی سے بات کروں گی ۔۔۔۔۔ " وہ چائے کا آخری سپ لیتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔
" کچھ پتا چلا لڑکا کون ہے " 
اس نے بیزاری سے کپ ٹیبل پر رکھ دیا 
" کہاں ۔۔۔۔ ابھی تک تو کسی نے لڑکے کو دیکھا تک نہیں  " 
" کسی نے بھی نہیں دیکھا کیا ۔۔۔۔ ؟" 
زویا حیران ہوئی 
" کسی سے مراد گھر کی لڑکیوں نے باقی سب تو دیکھ چکے ہیں ۔۔۔۔ " 
" انم نے دیکھا ۔۔۔۔ " 
"  نہیں اس بیچاری نے بھی کہاں دیکھا ۔۔۔۔ وہ شادی سے پہلے لڑکا دیکھے گی تو آغا جان کی ناک نہیں کٹ جائے گی " اس نے غصے سے کہا 
" ویسے سچ کہوں تو تمہارے آغا جان کر تو زیادتی رہے ہیں ۔۔۔ آج کل ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔  شاید ہی کچھ دیہات ایسے ہوں لیکن شہروں میں تو بالکل ایسا نہیں ہوتا ۔۔۔۔ " 
زویا ابھی تک چائے پی رہی تھی ۔۔۔۔۔
" چھوڑو ۔۔۔۔ خواہ مخواہ میرا دل نہ جلاو تم اور یہ بتاو وہ کمپیوٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " 
بولتے بولتے اچانک جیسے اس کے سر پر چھت گر گئی ہو ۔۔۔۔ وہ دور سے نظر آنے پر بھی اسے اچھے سے پہچان رہی تھی وہ سکندر تھا ۔۔۔۔جو اسے دیکھ چکا تھا اور اب اسی کی طرف غصے سے آ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ زویا نے تو کچھ سکینڈز بعد اسے دیکھا تھا اور وہ بھی اس کی طرح شاکڈ تھی ۔۔۔۔ اسے ڈر نہیں لگ رہا تھا لیکن اسے اچانک وہاں دیکھ کر وہ کافی صدمے میں آئی تھی ۔۔۔۔۔ 
" تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔ " وہ اس کے سر پر پہنچ کر زور سے دھاڑا ۔۔۔۔ وہ دونوں گھبرا کر کھڑی ہوئیں ۔۔۔۔۔
" مہ ۔۔۔۔ میں وہ ۔۔۔۔۔ " حیرت کے مارے اس کی آواز بھی نہیں نکل رہی تھی ۔۔۔۔۔اس سے پہلے وہ کوئی جواب سوچتی سکندر نے اس کا ہاتھ پکڑ اور کھینچتے ہوئے اس ڈھابے نما ہوٹل سے باہر لے گیا ۔۔۔۔ لوگوں کو دیکھنے کے لئے مفت کا تماشا مل گیا تھا ۔۔۔۔۔ سکندر نے گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے دھکا دیا تھا وہ اندر جا گری ۔۔۔۔۔۔
" تمہاری ہمت کیسے ہوئی گھر سے باہر نکلنے کی ۔۔۔۔ " 
وہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے دھاڑ رہا تھا ۔۔۔۔۔
" میں امی کو بتا کر آئی ہوں ۔۔۔۔ "
اس نے مدھم مگر سرد لہجے میں کہا اب وہ کافی حد تک سنبھل چکی تھی ۔۔۔۔۔
" لیکن مجھے تو نہیں بتایا "
 اس کا غصہ کم نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔ 
" کیونکہ تمہیں بتانا ضروری نہیں تھا اور آئندہ اس طرح میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے گھسیٹنے کی جرات نہ کرنا " 
" میں تمہیں قتل کرنے کا بھی اختیار رکھتا ہوں اور میں یہ کروں گا بھی ۔۔۔۔۔ جس دن میرے برداشت کی حد ختم ہو گئی اس دن تمہارا آخری دن ہوگا ۔۔۔۔۔۔ " 
وہ غصے میں لال ہو چکا تھا اور ڈرائیونگ کرتے ہوئے چیخ رہا تھا ۔۔۔۔۔
" تمہاری یہی سہیلی تمہیں الٹی سیدھی پٹیاں پڑھاتی ہے ۔۔۔۔ آزادی ، پسند کی شادی ، برابری وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔ " 
" جی نہیں اتنا شعور تو میں خود بھی رکھتی ہوں ۔۔۔۔۔تمہاری طرح نہیں ہوں امریکہ سے جا کر جاہلیت کی ڈگری لے کر آ گئے " 
" شٹ اپ ۔۔۔ ایک لفظ بھی آگے مت بولنا ۔۔۔۔ نہیں تو گاڑی سے نیچے پھینک دوں گا ۔۔۔۔۔۔ " 
" تو پھینک دوں ۔۔۔۔۔ لیکن میں تمہارے سامنے سر نہیں جھکاوں گی ۔۔۔۔۔۔ " 
وہ شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ ہنسا تھا ۔۔۔۔
" یہ تو وقت بتائے گا ۔۔۔ بس کچھ دن اور انتظار کر لو ۔۔۔ پھر تمہارا سر تمہاری آنکھیں سب کچھ میری ساننے جھکئ ہوئی ہوں گی ۔۔۔۔۔ تب سارے حساب برابر کروں گا میں ۔۔۔۔ " 
وہ گھر پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔ سکندر نے تیزی سے اتر کر اس کا دروازہ کھولا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر کھینچا ۔۔۔۔۔ اور اسے غصے سے کھینچتا ہوا اندر لے جانے لگا۔۔۔۔۔وہ مزاحمت کر رہی تھی ۔۔۔۔
" ہاتھ چھوڑو میرا ۔۔۔۔ " 
وہ اسے کھینچتا ہوا لے کر جا رہا تھا ۔۔۔۔ سامنے نرمین اور ثوبیہ بھابھی کھڑی تھیں ۔۔۔۔ سیڑھیوں پر تائی بھی آ گئی ۔۔۔۔ 
" کیا ہوا سکندر کیا کر دیا اس نے ۔۔۔۔ " اس نے تائی کو بھی مکمل نظر انداز کیا اور اسے اس کی ماں کے پاس لے آیا ۔۔۔۔ اور زور سے دھکا دیا وہ بیڈ پر جا کر منہ کے بل گری ۔۔۔۔
تائی ، نرمین اور ثوبیہ سبھی کمرے میں جمع ہو گئیں ۔۔۔۔
" سنبھالیں اپنی بیٹی کو آئندہ اگر یہ مجھے گھر کے باہر نظر آئی تو اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا ۔۔۔۔۔ " 
اس نے غصے سے سعدیہ بیگم سے کہا اور باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔۔
" خدا کا خوف کرو سعدیہ سنبھال کر رکھو بیٹی کو ۔۔۔۔ ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے " 
عظمی تائی بھی اماں کو سنا کر چلی گئیں ۔۔۔۔ امی نے بھی اسے دو چار تھپڑ لگائے تھے وہ ویسے ہی اوندھے منہ پڑی رہی ۔۔۔۔۔ جانے کیوں اسے رونا آ رہا تھا اپنی بے بسی پر اور لوگوں کی بے حسی پر ۔۔۔۔ کاش وہ اتنے مجبور نہ ہوتے یا آغا جان کے رحم و کرم پر نہ ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک گھنٹے تک وہ ویسے ہی اوندھی پڑی سسکتی رہی کمرے میں کوئی نہیں آیا ۔۔۔۔ اور اس ایک گھنٹے میں سکندر سے نفرت کا لیول ہائی ہو چکا تھا ۔۔۔۔ پھر جانے اسے کیا خیال آیا وہ تیزی سے اٹھی اور آنسوؤں رگڑ کر کمرے سے باہر نکلی ۔۔۔۔۔ اور سکندر کے کمرے میں پہنچ گئی ۔۔۔۔۔
وہ سکون سے بیڈ پر پاؤں پھیلا کر لیپ ٹاپ دیکھ رہا تھا اور یوں تیزی سے دروازہ کھلتے اور اسے کمرے میں دیکھ کر وہ بری طرح چونک گیا  ۔۔۔۔۔ اسے نہیں یاد وہ کبھی اس کے کمرے میں آئی ہو ۔۔۔۔۔۔
" اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوش فہمی سے باہر نکلو سکندر فیروز ۔۔۔۔۔۔ " 
وہ اس کے پاس کھڑی ہو کر چلا رہی تھی ۔۔۔۔۔
" میں یا تو مر جاوں گی یا پھر بغاوت کر جاوں گی لیکن تم سے شادی کبھی نہیں کروں گی ۔۔۔۔۔۔ " 
یہی دو جملے بولنے وہ یہاں آئی تھی اور بول کر اسے تیزی سے باہر نکلی سامنے سے تائی آتی دکھائی دیں ۔۔۔ ان کے ہاتھ میں کوئی کھانے کی ڈش تھی ۔۔۔۔۔
سکندر ابھی تک اس کے کمرے میں آنے اور کہے گئے جملوں پر گم سم سا ہو کر بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
" تم یہاں کیا کرنے آئی ہو " 
انہوں نے برہمی سے پوچھا ۔۔۔۔
" اپنے بیٹے سے پوچھ لیں ۔۔۔۔ " وہ دو ٹوک انداز میں بول کر باہر نکلی ۔۔۔۔
" دیکھا۔۔۔۔ دیکھا تو نے مجھے یہ اس لئے زہر لگتی ہے ۔۔۔۔ تبھی کہتی ہوں اس منحوس سے شادی نہ کرو ۔۔۔۔ " 
تائی غصے سے سکندر کے پاس آئیں ۔۔۔۔
" ایک بار شادی ہو جانے دیں امی پھر دیکھتا ہوں یہ کیسے نہیں سدھرتی ۔۔۔۔۔ " 
وہ کسی سوچ میں گم سم بولا ۔۔۔۔۔
" کیا اس سے شادی کرنا ضروری ہے۔۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی ہے تمہارے لئے ۔۔۔۔۔۔ " 
" یہ میری ضد ہے امی ۔۔۔۔ دیکھتا ہوں کیسے نہیں کرتی مجھ سے شادی ۔۔۔۔۔۔ "
دل کا بھڑاس نکال کر وہ چھت پر ٹھنڈی ہوا لینے چلی آئی اور دو گھنٹے تک وہیں بیٹھی سوچوں میں گم رہی ۔۔۔ دل کی جلن کافی حد تک کم ہو چکی تھی اب وہ پرسکون تھی ۔۔۔۔۔ 
اسے نہیں معلوم اس کے باہر جانے اور ہوٹل میں زویا سے ملنے والی خبر آغا جان تک کیسے پہنچی لیکن جب ثوبیہ بھابھی اسے چھت پر بلانے آئی کہ " آغا جان تمہیں بلا رہے ہیں " 
تب اسے سچ میں گھبراہٹ ہوئی اسے یقین تھا یہ خبر آغا جان تک پہنچانے والا سکندر تھا جو اپنی بے عزتی برداشت نہیں کر سکا ۔۔۔۔ سکندر کے لئے اس کے دل میں مزید اضافہ ہوا ۔۔۔۔۔۔ 
آغا جان ہال میں اکیلے نہیں تھے پوری فیملی وہاں کھڑی تھی اور وہ بھی سکون سے ایک سائیڈ پر سنجیدگی سے کھڑا تھا ۔۔۔ اس نے ایک نفرت بھری نظر سے سکندر کو دیکھا ۔۔۔۔۔
آغا جان نے کوئی بات بولنے سے پہلے اسے تھپڑ مارا تھا ۔۔۔ یقینا سکندر انہیں دو گھنٹے تک کافی آگ بگولہ کر چکے تھے ۔۔۔۔ یہ کوئی پہلا تھپڑ نہیں تھا جو انہوں نے اسے مارا تھا ۔۔۔۔۔۔
" تم کیا سمجھتی ہو ہم بے وقوف ہیں ۔۔۔۔۔ تم گھر سے باہر چلی جاو گی اور ہمیں خبر نہیں ہوگی " 
ان کی گرج دار آواز پورے ہال میں سنائی دے رہی تھی ۔۔۔ ہر طرف سناٹا تھا ۔۔۔۔ وہ کئی بار پہلے بھی گھر سے اکیلی باہر جا چکی تھی اور آج پکڑے جانے پر گھر کے مرد خود کو ہوشیار سمجھ رہے تھے ۔۔۔۔ 
" یہ کیا حرکت ہے عشرت ۔۔۔۔ جب تم جانتی ہو اس گھر سے باہر کوئی لڑکی اکیلی نہیں جا سکتی تو پھر تم کیوں گئیں ۔۔۔۔۔ " 
فیروز تایا بھی کافی غصے میں نظر آ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
اس نے نظر اٹھا کر فیروز تایا کو دیکھا ۔۔۔۔۔۔
آغا جان مزید سھلگ گئے ۔۔۔۔
" ایسے گھور کہ کیا دیکھ رہی ہو نظریں نیچی کر کے کھڑی رہو۔۔۔۔۔ " 
آغا جان اس کی اٹھی ہوئی نظروں سے آگ بگولہ ہو گئے ۔۔۔
" معاف کر دیں آغا جان آئندہ نہیں جائے گی " 
سعدیہ روتے ہوئے آگے آئیں ۔۔۔۔۔
" تم چپ کرو ۔۔۔ پہلے ہی یہ سب تمہاری غلط تربیت کا نتیجہ ہے ۔۔۔۔۔ بہتر یہی ہوگا تم اور تمہاری بیٹیاں ہماری بات سمجھ جاو ۔۔۔۔ نہیں تو اپنی دونوں بیٹیوں کو لے کر نکل جاو میرے گھر سے ۔۔۔۔۔۔۔ " 
آغا جان حتمی فیصلہ سنا کر وہاں سے کسی طوفان کی طرح چلے گئے ۔۔۔۔۔ وہ کافی دیر تک سکندر کو گھورتی رہی وہ بھی اسے غصے سے دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔
پھر نرمین اسے کمرے میں لے آئی جہاں وہ اسے بڑی دیر تک سمجھاتی رہی ۔۔۔۔۔
" آج تمہاری وجہ سے آغا جان نے امی کو گھر سے نکلنے کا کہا ۔۔۔۔ شرم کرو ۔۔۔۔ تم ہم سب کو اس گھر سے نکلوا کر دم لو گی ۔۔۔۔۔ " 
اس نے غصے سے نرمین کا ہاتھ جھٹک دیا ۔۔۔۔۔
" ایسے کیسے نکال سکتے ہیں وہ ہمیں گھر سے باہر ۔۔۔۔ اس گھر میں ابو کا بھی آدھا حصہ ہے اور انہوں نے آدھے حصے کے لئے باقاعدہ پیسے دیئے تھے ۔۔۔۔۔ " 
" ابو اب نہیں رہے اور تمہاری اس بات کی اب کوئی اہمیت نہیں ہے عشرت ۔۔۔۔بہتر ہے  تم پورے خاندان میں ہم سب کو ذلیل نہ کرو ۔۔۔۔ " 
" میں ان پر کیس کروں گی کورٹ میں ۔۔۔۔ پھر دیکھتی ہوں کیسے نہیں دیتے حصہ ۔۔۔۔۔ " 
نرمین منہ کھول کر حیرت سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔
" دماغ تو نہیں خراب تمہارا ۔۔۔۔ یہ کیا احمقانہ باتیں کر رہی ہو  ۔۔۔۔۔ " 
" تم بس دیکھ لینا ۔۔۔ کیا کرتی ہوں میں ۔۔۔۔۔ " 
وہ ایک خطرناک ارادے سے بولی ۔۔۔۔ 
نرمین کو یقین نہیں تھا وہ ایسا کچھ کرے گی ۔۔۔
___________________________________________
ایمان اور عشق 
ناصر حسین کا مقبول ناول کتابی شکل میں بھی دستیاب ہے اگر آپ آرڈر کرنا چاہتے ہیں تو ابھی اس نمبر پر وٹس ایپ کریں __ 
 03054762826
________________________________________
۔گھر میں شادی کا ماحول تھا انم کی شادی کی تاریخ رکھی جا چکی تھی ۔۔۔ دور دراز کی کچھ عورتوں کی آمد بھی گھر میں شروع ہو چکی تھی  ۔۔۔۔۔ خاندان کے مردوں کو گھر کے اندر آنے کی اجازت نہیں تھی ان کے لئے گیسٹ ہاوس میں علیحدہ نظام تھا ۔۔۔۔۔۔ 
اس حالیہ  سین سے باہر نکلی تو اسے انم کا خیال آیا ۔۔۔ جانے وہ اس دن اتنی گھبرائی ہوئی کیوں تھی ۔۔۔۔ اور یہی بات جاننے کے لئے وہ اس سے ملنے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔ لیکن ملنے سے پہلے اس نے تصدیق کرنا ضروری سمجھا
 " تائی گھر میں نہ ہوں ۔۔۔۔ ان کی موجودگی میں نہ تو وہ اس سے بات کر سکتی تھی اور نہ ہی وہ اسے بات کرنے دیتیں ۔۔۔۔
انم کے کمرے میں جانے سے پہلے وہ کچن میں آئی ثوبیہ بھابھی دودھ ابال رہی تھیں ۔۔۔۔۔
" تم نے تائی کو کہیں دیکھا بھابھی ۔۔۔۔ " 
" وہ گھر پہ نہیں ہیں ۔۔۔ کچھ خریداری کرنے گئیں ہیں ۔۔۔۔ " 
اس نے سکون کا سانس لیا اور باہر آئی ۔۔۔ کچھ بوڑھی عورتیں صوفے پر نظر آئیں ۔۔۔ شاید وہ ان کے گاوں کی تھیں لیکن وہ انہیں نہیں پہچان رہی تھی ۔۔۔۔ ان کو سلام کرتی وہ سیدھا انم کے پاس آئی ۔۔۔۔۔ 
اس وقت وہ اداسی سے شکل بنائے، بازوں میں سر دیئے بیٹھی تھی  ۔۔۔۔
" انم تم ٹھیک ہو ناں " 
انم نے چونک کر سر اٹھایا ۔۔۔۔
" ہاں ۔۔۔۔ ہاں میں ٹھیک ہوں " 
یہ بولتے ہوئے بھی وہ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔
" خاک ٹھیک ہو ۔۔۔ چہرہ دیکھو اپنا ۔۔۔۔ ایسا لگتا ہے ایک ہفتے سے سوئی نہیں ہو ۔۔۔۔۔  " 
وہ اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔
" تم یہ شادی نہیں کرنا چاہتیں " 
انم نے سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے دیکھا ۔۔۔ کوئی جواب نہیں دیا ۔۔۔۔ اسے ایک بار پھر اپنا سوال دہرانا پڑا ۔۔۔۔
" انم کیا تم شادی نہیں کرنا چاہتیں  " 
انم نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔ وہ کچھ لمحے اسے دیکھتی رہی ۔۔۔۔
" کیا تم کسی اور سے شادی کرنا چاہتی ہو ؟ " 
اس نے اندھیرے میں تیر چلایا تھا لیکن انم کے اعتراف نے اسے حیران کر دیا ۔۔۔۔۔ اس نے سوچا نہیں تھا اتنی جلدی وہ اس بات کا اعتراف بھی کر لے گی ۔۔۔۔۔
 " کون ہے وہ  " 
" ہمارا پڑوسی ہے ۔۔۔۔ " 
" تم کب سے اور کیسے جانتی ہو اسے ۔۔۔ " 
" اس کا نام کبیر ہے ۔۔۔۔ وہ سات مہینے پہلے ہی لنڈن سے واپس آیا ہے اور کچھ دنوں بعد واپس چلا جائے گا ۔۔۔۔۔ ہماری پہلی ملاقات بھی تقریبا سات مہینے پہلے ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ " 
" اور تم لوگوں کی ملاقات کہاں پہ ہوتی ہے گھر سے باہر تو تم جا نہیں سکتیں ۔۔۔۔ " 
" گھر کے پچھلے حصے لان کی طرف ایک چھوٹا حصہ ٹوٹا ہوا ہے ۔۔۔۔ جس کے ساتھ اس کا گھر ہے وہ یہاں کرائے پر رہتا ہے ۔۔۔۔ ہم دونوں ہر شام کو وہیں پہ ملتے ہیں ۔۔۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے اور مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔ میں نے اب اسے اپنی شادی کی بات بتائی تو وہ کافی ناراض ہے مجھ سے کہتا ہے ہم دونوں چھپ کر نکاح کر لیتے ہیں اور پھر وہ مجھے ہمیشہ کے لئے لنڈن لے جائے گا ۔۔۔۔۔  " 
انم نے روتے ہوئے اپنی بات پوری کی ۔۔۔۔ اس کی پوری بات سننے کے دوران وہ خاموشی سے سنتی رہی۔۔۔۔
" تو پھر مسئلہ کیا ہے " 
انم نے اسے گھور کر دیکھا ۔۔۔۔۔
" کیا تم سچ میں نہیں جانتیں مسئلہ کیا ہے ۔۔۔۔ " 

   1
0 Comments